حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق سکریٹری تنظیم المکاتب لکھنؤ نے موجودہ حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک کھلاخط وزیر اعظم هند کے لیے لکھا جسمیں وہ لکھتے ہیں عزت مآب محترم وزیر اعظم ہندوستان، وحشت،بے یقینی اور بے چینی کی منزلوںسے گزرتے ہوئے ہفتہ کے پانچویں دن محزون نظر کے ساتھ تنظیم المکاتب کی امامیہ اردو ریڈر کا ایک سبق نظر ثانی کے لئےاٹھا یا تو’’ اذان‘‘ نام کے سبق کی ان پنکتیوں پر سب سے پہلے نگاہ پڑی : کتنا اچھا ہے ہمارا ہندوستان،جس میں خوش خوش رہتے ہیں سب ہندو مسلمان۔
انھوں نے خط میں لکھا کہ ان لائنوں کو پڑھتے ہی فوراََ میرے دماغ میں ملک عزیز کے اس گائوں کی تصویر آگئی جسکو مسلمانوں سے خالی ہوئے عرصہ ہوا مگر وہاں کی مسجد آباد ہے اور اس میں ہندو اذان کہہ رہے ہیں۔ وہ منظر بھی سامنے آگیا جہاں ٹوپی داڑھی والےمسلمان شردھالوؤں کو کھانا پروس رہے ہیں،یا سیاہ لباس پہنے عزادار سبیل لگا کرہولی منانے والوں کی خاطر مدارات کر رہے ہیں۔یہ بھی یاد آیا کہ صدیوں پہلے جہاں امام علی نقی علیہ السلام کے فرزند دفن ہوئے تھے اوردہائیوں پہلےجہاں سے سارے مسلمان چلے گئے تھے یعنی ’’سمانہ ‘‘وہاں اُن بزرگ کی قبر آج بھی سکھوں کےذریعہ پورے احترام کے ساتھ محفوظ ہے۔
انھوں نے کہا کہ مجھے اپنا بچپن یاد آیا جب ہمارے گھر میں شادیوں میں ہندؤں کےلئےپکوان الگ پکتے تھے اور ہمارے لیے ہندوؤں کے یہاں مسلمان باورچی کھاناپکاتے تھے۔آج بھی جب ہم اپنے گاؤں جاتے ہیں تو سارے بڑے بوڑھے ہندو مسلمان ملنے آتے ہیں،کوئی ’’چَچَّا ،کوئی بھَیَّا، کوئی بھَوْجَائی ،کوئی پھُپھُّوْ‘‘،چاہے رام لکھن ہوں یا دینمحمد ایک ایک کی خیریت پوچھتے ہیں اور دل کی گہرائیوں سے دعا ئیں دیتے ہیں۔ یہ تھا ہمارا ہندوستان اور یہ رہے گا ہمارا ہندوستان ان شاء اللہ۔ ایک دوسرے کا ایک دوسرے کے مذہب کااحترام کرکے ایک دوسرے کے دردکو بانٹ کر ایک دوسرےکا خیال رکھکرجینے والوں کا ہندوستان۔
انہوں نے لکھا موجودہ حالات نے ذہن کو سوچنے پر مجبور کیا:خدا نہ کرے کیا وہ ہندوستان بدل رہاہے؟کیااتنا بدل رہا ہے کہ اپنے ہاتھوں سے اپنے پڑوسی کا گھر جلادے؟اپنے ہاتھوں سے اپنی بہن کے بیٹے بیٹی کو گولی ماردے؟کسی ماں کا کلیجہ کسی گھر کا سہارا چھین لے صرف اس لئے کہ یہ میرے مذہب،میرے دھرم کو نہیں مانتا۔پیٹ پیٹ کر مارڈالے صرف اسلیے کہ میرےدھرم اور مذہب پر نہیں چلتا؟!
وہ لکھتے ہیں میں سمجھ رہاتھا کہ بس تھوڑے سے لوگ ان حالات سے فکر مند ہیں باقی راضی ہیں۔ مگر ادھر نئے قوانین کے آنے کے بعد جن سےدلوں میں شکوک و شبہات پیدا ہوئے ۔جب وہ اٹھ کھڑے ہوئے جنھیں لاابالی اور لاپرواہ سمجھاجاتا ہے۔یعنی کالج اور یونیورسٹی کے اسٹوڈینٹس ،ہندوستان کا دماغ، ہندوستان کا مستقبل ،اس لئے کہ انہیں لگا کہ یہ بات مستقبل سےجڑی ہے Future Generation کی بات ہےیعنی ان کی بات ہے۔
انہوں نے لکھا بچوں کی فکر مندی نے بوڑھوں کو بھی چونکا دیا اور وہ بھی اپنی بے چینی اور شکوک وشبہات کو جس طرح ممکن ہوا ظاہر کرنے لگے ۔ان جوانوں نےماں باپ کو بھی بتادیا کہ جس سکون، امن، چین،بھائی چارہ کے ملک میں آپ رہے ہیں، ہم کو پالاہے ہم وہی ہندوستان چاہتے ہیں۔
مولانا صفی حیدر صاحب لکھتے ہیں محترم وزیر اعظم! شاید کچھ انسانیت دشمن ،ملک دشمن عناصر کو ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب نہیں بھائی، بلکہ شایدکچھ ممالک کو ہندوستان کاایکا ،ہندوستان کا بھائی چارہ اچھا نہیں لگاکیونکہ یہی ہندوستان کی طاقت ہے اور اُنھیں طاقتور ہندوستان پسند نہیں،اِنھیں سازش کرنے والوں نے ہمارے پڑھے لکھے کلچرڈاسٹوڈینٹس کے پر امن مظاہرےکو پر تشدد بنادیا۔ گولیاں چلیں خون بہا ہندوستان شرمسار ہوا۔
مولانا نے لکھا میرے عظیم ملک کے محترم وزیر اعظم! آپ خود ایک مذہبی انسان ہیں اور ہر مذہب انسانیت کی حفاظت سکھاتا ہے، مظلوم کی مدد اور ظلم کی مخالفت کی دعوت دیتاہے۔آپ کی خدمت میںعرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہر مسئلہ سے پہلےملک کی موجود ہ حالت پر توجہ دیں اورکوشش کریںکہ سب سے پہلے جوانوں کے زخم پر مرہم رکھا جائے ۔اگر ہم نے ان کے ساتھ تشدد کیا تو مستقبل کے حوالے وہ نسل کریں گے جو تشدد سے مسائل کو حل کرنے کی عادی ہوگی اور یہ ہمارے پر امن ملک کی تباہی بن جائے گا۔
مولانا لکھتے ہیں ہمیں مظلوموں کو پناہ دیئے جانے پر کوئی اعتراض نہیں، چاہے وہ کسی بھی مذہب کے ہوں،چاہےوہ جوکسی کے ظلم کی وجہ سے آچکے ہیں یا کبھی بھی کسی کے ظلم سے گریزکرکے ہمارے ملک میں پناہ لیں۔ ہماری زمین چاہے تنگ ہو مگر ہمارا دل بڑا ہے۔مگر جدید قوانین کے نفاذ کے بارے میں شکوک وشبہات ہیں اس لئے۔۔۔
صٖفی حیدر صاحب نے لکھا محترم وزیر اعظم ہند! آپ سے دوسری دست بستہ گذارش ہےکہ جوانوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بعد خدارا!جدید قوانین سے پیدا ہونے والے خدشات کو محسوس کریںکہ ہر طبقہ، ہرعمر ،ہر مذہب کے لوگوں نے ان قوانین اور ان سے پیدا ہونے والی مشکلات کےبارے میں اپنا نظریہ آپ تک پہنچا نے کی کوشش کی ہے۔ آپ خود ملاحظہ فرمائیں کہ ایک چھوٹی سی ریاست آسام میں اتنی بڑی تعداد میں لوگ چاہے ہندو ہوں یا مسلمان خود کو ہندوستانی ثابت نہ کرسکے۔بلکہ معلومات کے مطابق ان میں ہندو، ہندوستانیوں کی تعداد ان مسلمانوں سے کہیں زیادہ تھی جو خود کو ہندوستاتی ثابت نہیں کر سکے ۔تو پورے ملک کے عوام کا کیا ہوگا ؟سب سے زیادہ غریب مزدور اور دن بھر محنت مزدوری کرکے بچوں کا پیٹ بھرنے والا ،بے گھر،بے زمین، بے پڑھا لکھا ہندوستانی متأثر ہوگا ۔وہ اپنی جنم بھومی کے علاوہ اپنے ہندوستانی ہونے کاثبوت کیا پیش کرے گا؟
حجت الاسلام والمسلمین مولانا صفی حیدر صاحب نے مزید لکھتے ہوئے بیان کیا ظاہر ہے کہ آپ کی حکومت نے یہ قدم عوام کی فلاح وبہبودکے لئے اٹھایا تھا مگر پورے ملک کے گوشہ وکنار سے ہر طبقہ کے لوگ اسےنہ اپنے مفاد میں سمجھ رہے ہیں نہ اپنے ملک کے مفاد میں۔تو پھرایک جمہوری ملک کے وزیر اعظم ہونے کے ناطے عوام کے مطالبہ کو قبول کر لیجئے۔ ان کے آنسو پوچھ کر ان کو گلے لگا لیجئےجس قانون سے یہ حالات پیدا ہوئے ہیں اسے واپس لے لیجئے ۔تاکہ وہی ہندوستان زندہ رہے جو ہزاروں ،لاکھوںسال سےہر ہندوستانی کو اپنی گود میں ماں کا پیار اور باپ کا اعتبار دے رہا ہے ۔اور ہمارا عزیزوطن پھر امن وامان کا گہوارہ بن جائے اور بدخواہوں کے شر سے محفوظ رہ کر ترقی کی راہ پر گامزن ہوجائے۔اورجناب عالی کا خواب :’’سب کا ساتھ ،سب کا وِکاس، سب کا وشواس‘‘ اپنی تعبیر پالے۔